[go: nahoru, domu]

مندرجات کا رخ کریں

بھارت میں جنسی تعلیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بھارت جیسے قدامت پسند ملک میں سن بلوغ کے قریب پہنچنے والی اور اپنے اپنے اسکول میں باضابطہ نوویں جماعت کی تعلیم پانے والی لڑکیاں جنسی تعلیم کا درس پا رہی ہیں، جو اگر چیکہ بہت عام نہیں ہے، تاہم یہ دھیرے دھیرے رواج پا رہا ہے۔

بھارت میں جنسی تعلیم (انگریزی: Sex education in India) سے مراد بھارت کی مختلف حکومتوں اور غیر منافع بخش تنظیموں کی جانب سے ایسے مواد اور معلومات کا فروغ جو بہ طور خاص مباشرت، جنسیت اور وضع حمل سے متعلق ہو۔ بھارت میں تین قسم کی جنسی تعلیمات رائج ہیں: (1) اصالتًا جنسی تعلیم کے نصابات جو اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں پر مرکوز ہیں۔ (2) بالغ اصحاب کے لیے خاندانی منصوبہ بندی اور اس سے جڑی معلومات اور (3) ایچ آئی وی / ایڈز کی روک تھام کی تعلیم۔ اس مضمون کا مقصد موجودہ صورت حال، موجودہ حدِ بساط اور ملک میں جنسی تعلیم کی اِن قسموں کی مخالفت۔ بھارت میں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے دیکھیے بھارت میں خاندانی منصوبہ بندی۔

جنسی صحت کی موجودہ صورت حال

[ترمیم]

سماجی میڈیا اور اس سے ابھرتے مسائل

[ترمیم]

2018ء کے اوائل میں بھارت میں واٹس ایپ پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہو گئی جس میں کچھ نو عمرلڑکوں کا ایک گروہ ایک جوان عورت کے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کلپ میں لڑکی ان کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے اور ویڈیو میں اسے 'بھیا' کہتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے۔ لڑکے نہ صرف ہنس رہے ہیں بلکہ اس کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں۔اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پولیس نے اس ویڈیو کا سراغ لگایا اور پتہ چلا کہ یہ ملک کی شمالی ریاست بہار میں فلمائی گئی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے ویڈیو میں دیکھے جانے والے ان نو عمر لڑکوں کو گرفتار کر لیا۔ان گرفتاریوں سے ان کے گاؤں جہان آباد میں ہلچل مچ گئی۔ ریاستی دار الحکومت پٹنہ سے کچھ گھنٹے دور اس گاؤں کے سرپنجوں نے اس سارے واقعے کا ذمہ دار موبائل فونوں کو ٹھہرایا۔بھارت میں فحش فلمیں یا پورن ویڈیوز بنانا یا ایک دوسرے کو بھیجنا غیر قانونی ہے۔ تاہم سستے انٹرنیٹ پیکیجوں اور فحش فلموں تک آسان رسائی کی وجہ سے یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ نو عمر آبادی کو جنسی تعلیم یا رشتوں کو سمجھنے کے حوالے سے کوئی مدد حاصل نہیں۔[1] ماہریں عمرانیات اور ماہرین نفسیات اس سب کی وجہ جنسی تعلیم کا فقدان قرار دیتے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت جب جب کہ جسم میں کئی اندرونی تبدیلیاں ہو رہی ہوں، وہ خیزش اور جنسی کشش کے احساسوں سے گذر رہے ہوں، مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ ان تبدیلیوں کو کیسے مثبت طریقے سے سے بہ روئے کار لایا جا سکتا ہے۔ جنسی عمل در آمد کے ساتھ ساتھ جنسی ضبط، خاندانی اخلاق اور قانونی طور پر جنسی ہراسانی اور آبرو ریزی جیسے مسائل ہیں، جن کے بارے میں تفصیلی معلومات کا ہونا ہی نو جوانوں اچھے شہری بننے میں معاون ہو سکتا ہے۔ سماج میں سماجی میڈیا ایسے وقت پر ایک آسانی دستیاب ہتھیار کا کام کر رہا ہے جو مستند اور مثبت معلومات کی بجائے انتہائی سوقیانہ، رخیص اور مخرب اخلاق معلومات فراہم کر رہا ہے، جن سے نو جوان بگاڑ، بے راہ روی، جنسی جرم اور جواں سال عورتوں کے لیے بے رحمانہ رویے پر مائل ہو رہے ہیں۔

جنسی جرائم میں بے تحاشا اضافہ

[ترمیم]

بھارت میں سنہ 2015ء میں بچوں کے خلاف جنس سے متعلق 8904 مقدمات درج ہوئے تھے جب کہ پچھلے سال ان جرائم کی تعداد 14913 تھی۔[2] ان اعداد و شما ر سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد اور جرائم بدستور بھارت کے لیے رسوائی اور بدنامی کا دھبہ بنے ہوئے ہیں اور جنسی تعلیم اس کی روک تھام کے لیے ایک مؤثر ممکنہ تدبیر ہو سکتی ہے۔

اسکولوں میں جنسی تعلیم

[ترمیم]

جنسی تعلیم کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے ملک کی مختلف ریاستوں نے اسے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مہاراشٹر حکومت نے 2009ء کے تعلیمی سال سے نویں اور گیارہویں جماعت میں جنسی تعلیم کو لازمی قرار دیدیا ہے اور اب جنسی تعلیم سے متعلق طلبہ کو امتحانی پرچے کے لزوم کا بھی اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی اس وقت کے ریاستی وزیر برائے تعلیم وسنت پوار کے نے مہاراشٹر قانون ساز کونسل میں حکومت کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ صرف نصاب میں اسے شامل کرنے سے اسکولوں میں اس پر زیادہ توجہ نہیں دی جائے گی، اس لیے حکومت نے اس موضوع کو امتحان میں بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ [3]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "انڈیا میں ریپ ویڈیوز کے وائرل ہونے کا خطرناک رجحان"۔ بی بی سی اردو 
  2. "بھارت میں بچوں کے خلاف جرائم میں 70 فی صد اضافہ"۔ وائس آف امریکا 
  3. "اسکولوں میں جنسی تعلیم لازمی"۔ بی بی سی اردو